Friday 28 November 2014

کیا ووٹ شرعی مشورہ ہے؟

﷽ؒ

کیا ووٹ شرعی مشورہ ہے؟

آج بعض حضرات اس کفر کو اسلام ثابت کرنے کے چکر میں جمہوری انتخابات کو اسلام کے عطا کردہ تصورِ شورائیت کا مترادف ثابت کرنا چاہتے ہیں اور عام مسلمانوں کو قرآنِ کریم کی یہ آیت سناتے ہیں کہ:
﴿ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا…﴾(النساء: 58)
’’ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم امانتوں کو ان کے حق داروں تک پہنچاؤ……‘‘۔

چنانچہ ووٹ بھی ایک امانت ہے اس لیے یہ ان کے حق داروں کو پہنچاؤ۔ آئیے انتخابات اور شریعت کے عطا کردہ تصورِ مشورہ کے مابین چند بنیادی فرق دیکھتے ہیں تاکہ ہم جان سکیں کہ آیا ووٹ واقعی کوئی امانت یا مشورہ 



ہے یا ایک یکسر فرق تصور:
اسلام میں مشورہ ایک رائے ہوتی ہے۔اس کو تسلیم بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ جمہوریت میں جو ووٹنگ کی جاتی ہے اس میں اکثریت کی رائے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
اسلام میں جن لوگوں سے مشورے کا کہا گیا ہے وہ ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مشورہ اور رائے کی صلاحیت سے نوازا ہے۔جبکہ جمہوریت میں ووٹ کا حق ہر ایک کو حاصل ہے۔عالم و جاہل،ولی اللہ و زانی،مسلمان وکافر…… یہاں سب ایک جیسے ہیں۔
شریعت کی روسے مسلمانوں کے معاملات میں کافر،مرتد یا زندیق مشورہ نہیں دے سکتا، جبکہ جمہوریت ان سب کو ایک جیسا بنادیتی ہے۔
اسلام میں یہ بات بھی طے ہے کہ مشورہ کن امور میں کیا جا سکتا ہے، مثلاً دین کے بنیادی اصولوں پر مشورہ نہیں کیا جاتا بلکہ ان اصولوں پر جوں کاتوں عمل کیا جاتا ہے، جبکہ انتخابات میں تو ایک طرف اسلام لانے کے دعویدار اور دوسری طرف خالص سیکولرازم کے علم بردار کھڑے ہوتے ہیں اور عوام اگر سیکولر منشور کو قبول کر لیں اور سیکولر جماعت کو زیادہ ووٹ دے دیں تواس ’’عوامی مینڈیٹ‘‘ کا احترام لازم ہوجاتا ہے، والعیاذ باللہ!

No comments:

Post a Comment

Contributors