Tuesday 25 November 2014

منبرالتوحید والجہاد

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس شخص کا کیا حکم ہے جو لاالہ الا اللہ تو پڑھتاہے لیکن نماز نہیں پڑھتا، نہ روزہ رکھتا ہے، نہ زکوۃ دیتا ہے اور نہ کوئی عمل کرتا ہے؟ترجمہ: انصاراللہ اردو ٹیم

سوال نمبر: ۵۲۶۲
السلام عليكم
کیا اس شخص کو مسلمان سمجھا جاسکتاہے جو لاالہ الا اللہ تو پڑھتا ہے مگر(دینی) اعمال میں سے کوئی عمل نہیں کرتا؟ کیاوہ محض(دینی) عمل چھوڑنے کی وجہ سے کافرہوگیا؟
سوال کنندہ : اللہ اکبر دین اللہ غالب
 




جواب کنندہ: منبر کی شرعی کمیٹی
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد المرسلين محمد صلى الله عليه وسلم وعلى آله وصحبه أجمعين، أما بعد:
بلاشبہ اہل سنت والجماعت کا ایمان کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ وہ قول اور عمل ہے۔
شیخ الاسلام (ابن تیمیہ رحمہ اللہ) ایمان کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"فتارة يقولون –السلف- هو قول وعمل وتارة يقولون هو قول وعمل ونية وتارة يقولون قول وعمل ونية واتباع السنة وتارة يقولون قول باللسان واعتقاد بالقلب وعمل بالجوارح وكل هذا صحيح. فإذا قالوا قول وعمل فإنه يدخل في القول قول القلب واللسان جميعاً وهذا هو المفهوم من لفظ القول والكلام ونحو ذلك إذا أُطلق…، والمقصود هنا أن من قال من السلف الإيمان قول وعمل أراد قول القلب واللسان وعمل القلب والجوارح ومن أراد الاعتقاد رأى أن لفظ القول لا يُفهم منه إلا القول الظاهر أو خاف ذلك فزاد الاعتقاد بالقلب، ومن قال قول وعمل ونية قال القول يتناول الاعتقاد وقول اللسان وأما العمل فقد لا يُفهم منه النية فزاد ذلك، ومن زاد اتباع السنة فلأن ذلك كلّه لا يكون محبوباً لله إلا باتباع السنة وأولئك لم يريدوا كل قول وعمل إنما أرادوا ما كان مشروعاً من الأقوال والأعمال، ولكن كان مقصودهم الرد على المرجئة الذين جعلوه قولاً فقط فقالوا بل هو قول وعمل، والذين جعلوه أربعة أقسام فسروا مرادهم، كما سُئل سهل بن عبد الله التُّسْتري عن الإيمان ما هو؟ فقال: قول وعمل ونية وسنّة لأن الإيمان إذا كان قولاً بلا عمل فهو كفر، وإذا كان قولاً وعملاً بلا نية فهو نفاق، وإذا كان قولاً وعملاً ونية بلا) سُنَّة فهو بدعة)(مجموع الفتاوى 7/ 100)۔
’’بعض دفعہ ــ سلف ـ کہتے ہیں کہ وہ قول اور عمل ہے۔ بعض دفعہ کہتے ہیں کہ وہ قول، عمل اور نیت ہے۔ بعض دفعہ کہتے ہیں کہ وہ قول، عمل، نیت اور اتباع سنت ہے۔ بعض دفعہ کہتے ہیں کہ زبان سے اقرار کرنا، دل سے تصدیق کرنا اور جوارح سے عمل کرنا ہے۔ یہ سب اقوال درست ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ قول اور عمل ہے تو قول میں دل اور زبان دونوں کا قول آجاتا ہے۔ قول کے لفظ کہنے اور اس جیسے دیگر الفاظ کی ادائیگی سے یہی مرادہوتا ہے اور اسی پر اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ ان سب کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ سلف میں سے جو ایمان کو قول وعمل کہتے ہیں تو ان کی مراد دل وزبان کا قول اور دل وجوارح کا عمل ہے۔ جو ایمان کے ماننے کا اضافہ کرتے ہیں تو ان کے نزدیک معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ قول کے لفظ سے ظاہری قول مراد ہے اور انہیں اعتقاد کے نہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، اس وجہ سے وہ دل سے ماننے کا اضافہ کرتےہیں۔ جو سلف ایمان کو قول، عمل اور نیت کہتے ہیں تو وہ قول سے مراد ماننا اور زبان سے کہنے کو خیال کرتے ہیں۔ جبکہ عمل سے نیت کا پتہ نہیں چلایا جاسکتا ۔اس وجہ سے انہوں نے نیت کا اضافہ کیا ہے۔ جو سلف ایمان میں اتباع سنت کا اضافہ کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام کام اللہ کے پسندیدہ اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک سنت کی پیروی نہ کی جائے۔ ان کی مراد ہر قول اور عمل نہیں ہے بلکہ ان کی مراد صرف شریعت کے مقرر کردہ اقوال واعمال ہیں۔ ایسا کرنے سے مرجئہ کا رد کرنامقصودہے جنہوں نے ایمان کو صرف قول بنادیا تھا۔اس وجہ سے سلف نے کہا کہ وہ قول وعمل ہے۔ جن اسلاف نے ایمان کی چاراقسام ذکر کیں، انہوں نے اپنی مراد کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا۔جیسا کہ سہل بن عبداللہ تستری سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا کہ وہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا : قول، عمل،نیت اور سنت ہے۔کیونکہ اگر ایمان صرف قولی ہو اور عمل نہ ہو تو وہ کفر ہے۔ اگر ایمان صرف قولی وعملی ہو اور نیت نہ ہو تو وہ نفاق ہے۔ اگر ایمان صرف قولی وعملی اور نیت ہو اور اس میں سنت نہ ہو تو وہ بدعت ہے۔‘‘ (مجموع الفتاوی 7/ 100)۔
ابن رجب حنبلی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
’’سلف نے ان لوگوں پر سختی کے ساتھ شدید رد کیا ہے جو اعمال کو ایمان سے خارج کرتے ہیں۔ اسلاف میں سے جن لوگوں نے ایسا کہنے والوں پر رد کیا اور اعمال کو ایمان سے خارج کرنے والے قول کو بدعتی قول قرار دیا ان میں سے بعض یہ ہیں :
سعيد بن جُبير، ميمون بن مہران، قتادة ، ايوب السختيانی، ابراهيم النخعی، الزهری اوریحیی بن ابي كثير وغیرہ
ثوری کہتے ہیں: ’’یہ ایک بدعتی رائے ہے اور ہم نے لوگوں کو بھی اس کے مخالف ہی پایا ہے۔‘‘
اوزاعی کہتے ہیں: ’’جتنے بھی اسلاف گزرچکے ہیں، وہ ایمان اور عمل کے درمیان تفریق نہیں کرتے تھے۔‘‘ (جامع العلوم والحكم لابن رجب الحنبلي ص70)۔
پس جس کسی نے بھی اعمال کو بغیر عذر کے چھوڑا ـــ عذر سے میری مراد یہ ہے کہ کوئی شخص نیا اسلام میں داخل ہوا ہو اور اسے اس بات کا علم نہ ہو کہ اللہ تعالی نے اس پر کن اعمال کو فرض قراردیا ہے یا ایسا شخص جو کسی دور وادی میں رہتا ہو اور اسے صرف شہادتین (کلمہ طیبہ) کے علاوہ اسلام کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو۔ ـــ تو وہ کافر مرتد ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
(وقد اتفق المسلمون على أنه من لم يأت بالشهادتين فهو كافر وأما الأعمال الأربعة فاختلفوا في تكفير تاركها ونحن إذا قلنا أهل السنة متفقون على أنه لا يُكفَّر بالذنب فإنما نريد به المعاصي كالزنا والشرب وأما هذه المباني ففي تكفير تاركها نزاع مشهور، وعن أحمد في ذلك نزاع وإحدى الروايات عنه أنه يُكفّر من ترك واحدة منها وهو اختيار أبي بكر وطائفة من أصحاب مالك كابن حبيب، وعنه رواية ثانية لا يكفر إلا بترك الصلاة والزكاة فقط ورواية ثالثة لا يكفر إلا بترك الصلاة والزكاة إذا قاتل الإمام عليها، ورابعة لا يكفر إلا بترك الصلاة، وخامسة لا يكفر بترك شيء منهن، وهذه أقوال معروفة للسلف.
’’مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہیں کہ جس نے شہادتین کا اقرار نہ کیا وہ کافرہے۔ لیکن انہوں نے باقی چار اعمال کو چھوڑدینے والے شخص کو کافر قراردینے کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت اس پر متفق ہیں کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا کافر نہیں ہے توبلاشبہ اس سے ہماری مراد زنا اور شراب جیسے گناہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بنیادی ارکان کو چھوڑنے والے کو کافر قراردینے میں مشہور اختلاف ہے۔ امام احمد کا بھی اس بارے میں اختلاف ہے۔ ان سے مروی ایک روایت میں ہے کہ جو ان (ارکان) میں سے ایک بھی چھوڑ دے تو وہ کافر ہے۔ اس قول کے قائل ابوبکر اور ابن حبیب جیسے امام مالک کے ساتھیوں میں سے ایک گروہ ہے۔ امام احمد سے مروی دوسری روایت میں ہے کہ صرف نماز اور زکوۃ کو چھوڑنے والا کافر ہے۔ ان سے ایک تیسری روایت میں مروی ہے کہ نماز اور زکوۃ کو چھوڑنے والا کافر اس وقت ہوگا جب امام ان کیخلاف قتال کررہا ہو۔ چوتھی روایت میں ہے کہ نماز ترک کرے تو اس وقت اسے کافر قراردیا جائے گا۔ پانچویں روایت میں ہے کہ ان میں سے کوئی بھی چیز ترک کرے تو وہ کافر نہیں ہے۔ سلف کے یہ اقوال معروف ہیں۔
حکم ابن عتیبہ کہتے ہیں: ’’جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی توتحقیق اس نے کفر کیا۔ جس نے جان بوجھ کرزکوۃ نہ دی توتحقیق اس نے کفر کیا۔ جس نے جان بوجھ کر حج چھوڑا توتحقیق اس نے کفر کیا۔ جس نے جان بوجھ کر رمضان کے روزے چھوڑے تو تحقیق اس نے کفر کیا۔‘‘ سعید بن جبیر کہتے ہیں: جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی توبلاشبہ اس نے اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا۔ جس نے جان بوجھ کر زکوۃ نہ دی تو بلاشبہ اس نے اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا اور جس نے جان بوجھ کر روزے چھوڑے توبلاشبہ اس نے اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا۔
ضحاک کہتے ہیں کہ: نماز زکوۃ کے بغیر بلند نہیں ہوتی ہے۔ عبد اللہ بن مسعود(رضی اللہ عنہ)کہتے ہیں: جو نماز قائم کرتا ہے اور زکوۃ نہیں دیتا تو اس کی نماز نہیں ہوتی ہے۔ اس کو اسد بن موسی نے روایت کیا ہے۔(مجموع الفتاوى 7/169)۔ والله أعلم۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
(ولهذا تنازع العلماء في تكفير من يترك شيئاً من هذه الفرائض الأربعة بعد الإقرار بوجوبها. فأما الشهادتان إذا لم يتكلم بهما مع القدرة فهو كافر باتفاق المسلمين وهو كافر باطناً وظاهراً عند سلف الأمة وأئمتها وجماهير العلماء…. وأما الفرائض الأربعة فإذا جحد وجوب شيء منها بعد بلوغ الحجة فهو كافر وكذلك من جحد تحريم شيء من المحرمات الظاهرة المتواتر تحريمها كالفواحش والظلم والكذب والخمر ونحو ذلك، وأما من لم تقم عليه الحُجّة مثل أن يكون حديث عهد بإسلام أو نشأ ببادية بعيدة لم تبلغه فيها شرائع الإسلام ونحو ذلك أو غلط فظنّ أن الذين آمنوا وعملوا الصالحات يستثنون من تحريم الخمر كما غلط في ذلك الذين استتابهم عمر (رضي الله عنه) وأمثال ذلك فإنهم يُستتابون وتقام الحجة عليهم فإن أصروا كفروا حينئذ ولا يُحكم بكفرهم قبل ذلك كما لم يحكم الصحابة بكفر قدامة ابن مظعون وأصحابه لما غلطوا في ما غلطوا فيه من التأويل.
’’اسی وجہ سے علماء میں ان چار فرائض کے واجب ہونے کا اقرارکرنے کے بعد ان میں سے کسی ایک کو چھوڑنے والے کو کافر قراردینے میں اختلاف ہے۔البتہ اگر کوئی شخص شہادتین کا اقرار کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود انہیں نہیں پڑھتا ہے تو اس کے کافر ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اسی طرح امت کے اسلاف، ائمہ اور جمہور علماء کے نزدیک وہ شخص ظاہری اور باطنی کافر ہے۔لیکن اگر وہ چار فرائض میں سے کسی ایک کے واجب ہونے انکار کرے تو حجت قائم ہوجانے کے بعد وہ کافر ہے۔اسی طرح متواتر سے حرام کردہ ظاہری اشیاء میں سے فحش اشیاء، زنا، ظلم، جھوٹ اور شراب جیسی کچھ چیزوں کے حرام ہونے کو نہ مانے تو وہ کافر ہے۔ ہاں البتہ جس شخص پر حجت قائم نہ ہوئی ہو ،اس وجہ سے کہ وہ نیا اسلام قبول کرنے والا ہے یا کسی دور درازوادی میں رہ رہا ہے اور اس تک اسلامی احکام نہیں پہنچے ہیں یا اسے انہیں سمجھنے میں غلطی لگی ہو اور اس نے یہ سمجھ لیا ہوکہ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے شراب کی حرمت سے مستثنی ہیں تو ایسے لوگوں کی توبہ قبول کی جائے گی اور ان پر حجت کا اتمام کیا جائے گا جیساکہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس طرح کے لوگوں سے توبہ قبول کرکےمعاف کردیا تھا۔ اگر وہ حجت پوری ہونے کے بعد پھر بھی ان پر اصرار کریں تو اس وقت وہ کافر ہوجائیں گے۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے سے پہلے ان پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا جیسا کہ صحابہ نے قدامہ ابن مظعون اور اس کے ساتھیوں پر کفر کا حکم نہیں لگایا تھا جنہوں نے غلط تاویلیں کرکے غلطیاں کیں تھیں۔‘‘
ہاں البتہ اگر کوئی ان کے واجب ہونے کا اقرار کرتا ہو اور پھر ان چار ارکان میں سے کچھ پر عمل کرنا چھوڑے تو اسے کافر قرار دینے کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں جو تمام کے تمام احمد سے مروی ہیں۔
ایک قول یہ کہ وہ ان چار میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑے گا، خواہ وہ حج ہی کیوں نہ ہوتو اس نے کفر کا ارتکاب کرلیا۔اگرچہ حج کو مؤخر کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے مگر جب بھی کسی نے کلی طور پر حج کو ترک کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے کفر کرلیا۔ یہ سلف کی ایک جماعت کا قول ہے اور یہ احمد کی ایک روایت ہے جسے ابوبکر نے اختیار کیا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ وہ واجب کا اقرار کرتے ہوئے بھی اگر ان ارکان میں سے کچھ کو چھوڑدے تووہ کافر نہیں ہو گا۔ یہی ابوحنیفہ، مالک اور شافعی کے اکثر فقہاء کے ہاں مشہور ہے اور یہ احمد کی ایک روایت ہے جسے ابوبکر نے اختیار کیا ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ وہ صرف نماز کو چھوڑنے کی صورت میں کافر ہوتاہے۔ یہ احمد سے تیسری روایت ہے۔ اسلاف میں سے اکثر اور مالک، شافعی اور احمد کے ساتھیوں کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔
چوتھا قول یہ ہے کہ وہ صرف نماز اور زکوۃ کو چھوڑنے کی صورت میں کافر ہوتا ہے۔پانچواں قول یہ ہے کہ وہ روزہ اور حج کو چھوڑنے کے علاوہ نماز اور زکوۃ کو چھوڑنے کی صورت میں اس وقت کافر ہوجاتا ہے جب امام اس سے قتال کریں۔
اس مسئلے کے دو رخ ہے۔ ایک رخ کا پہلویہ ہے کہ ظاہری اور باطنی کفر کو ثابت کرناجبکہ دوسراپہلو یہ ہے کہ باطنی کفر کو ثابت کرنا۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ ایمان قول وعمل پر مبنی مسئلہ ہے جیساکہ پہلے بیان ہوچکاہے۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک آدمی مومن ہو اور اس کے دل میں یہ ایمان راسخ ہو کہ اللہ تعالی نے اس پر نماز، زکوۃ، روزے اور حج کو فرض کیا ہے،اس کے باوجود وہ اپنی زندگی کا ایک عرصہ ایسے گزارے کہ اس نے اللہ کے لیے ایک سجدہ نہ کیا ہو، رمضان کا ایک روزہ نہ رکھا ہو اور بیت اللہ کا ایک حج نہ کیا ہو۔ ایسا اس شخص سے ہی ہوسکتا ہے جس کے دل میں نفاق اور زندقہ(لادینیت،گمراہی) ہو جبکہ ایسا صحیح ایمان کے ہوتے ہوئے نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے سجدے سے انکار کرنے کو کافروں کی صفت قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے:
’’يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ، خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ‘‘۔(القلم)
’’ جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور (کفار) سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو وہ سجدہ کی قدرت نہ پائیں گے۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ان پر ذلت چھا رہی ہوگی حالانکہ پہلے (اس وقت) وہ سجدے کے لیے بلائے جاتے تھے جبکہ وہ صحیح و سالم تھے(اور وہ بالارادہ سجدہ نہیں کرتے تھے)۔‘‘

اسی طرح صحیح میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کو وضوء کے آثار سے تابندہ رو اور روشن ہونے والی پیشانی اور اعضاء سے پہچانیں گے۔
یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس کسی کی پیشانی اوراعضاء وضوء کے آثار سے تابندہ رو اور روشن نہیں ہونگے اسے نبی ﷺ نہیں پہنچانیں گے اور جس کونہیں پہنچانیں گے وہ ان کی امت میں سے نہیں ہے۔
اسی طرح قرآن میں بھی دینی اخوت کو نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے سے اسی طرح مشروط کیا گیا ہے جیسے کفر سے توبہ کرنے سے اسے مشروط کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں نبی اکرم ﷺ سے صحیح حدیث میں مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
"العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها كفر"
’’ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز کا ہے۔ پس جس کسی نے اسے چھوڑا تو اس نے کفر کیا‘‘

مسند میں یہ حدیث ہے:
"من ترك الصلاة متعمداً فقد برئت منه الذمّة…"
’’جس کسی نے جان بوجھ کر نماز کو چھوڑا تو بلاشبہ وہ (اللہ کے) ذمے سے نکل گیا۔‘‘ (مجموع فتاوى ابن تيمية 7/330)۔


جواب منجانب: شیخ خطیب بغدادی
عضو شرعی کمیٹی
منبرالتوحید والجہاد

No comments:

Post a Comment

Contributors